text
stringlengths 0
57
|
---|
۱ گُلزارِ ہست و بود نہ بیگانہ وار دیکھ |
نہ آتے، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی |
عجب و اعظ کی دِین داری ہے یا رب |
لاؤں و ہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے |
کیا کہوں اپنے چمن سے میں جُدا کیونکر ہُوا |
انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں |
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی |
کہوں کیا آرزوئے بے دِلی مجھ کو کہاں تک ہے |
جنھیں مَیں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں، زمینوں میں |
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہُوں |
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے |
سختیاں کرتا ہوں دِل پر، غیر سے غافل ہوں میں |
مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑدے |
زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں |
الٰہی عقلِ خجستہ پے کو ذرا سی دیوانگی سِکھا دے |
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھّے گا گُفتگو کا |
چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں |
یوں تو اے بزمِ جہاں دلکش تھے ہنگامے ترے |
مثالِ پر توِمے طوفِ جام کرتے ہیں |
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا،عام دیدارِ یار ہوگا |
اے بادِ صبا کملی والےؐ سے جا کہیو پیغام مرا |
یہ سرودِ قُمری وبُلبل فریبِ گوش ہے |
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی |
پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر |
پھر بادِ بہار آئی، اقبالؔ غزل خواں ہو |
کبھی اے حقیقتِ مُنتظَر نظر آلباسِ مجاز میں |
تہِ دام بھی غزل آشنار ہے طائرانِ چمن تو کیا |
گرچہ تو زندانیِ اسباب ہے |
ظریفانہ |
مشرق میں اصول دِین بن جاتے ہیں |
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی |
شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں |
یہ کوئی دن کی بات ہے اے مردِ ہوش مند |
تعلیمِ مغربی ہے بہت جُرأت آفریں |
کچھ غم نہیں جو حضرتِ واعظ ہیں تنگ دست |
تہذیب کے مریض کوگولی سے فائدہ |
اِنتہا بھی اس کی ہے؟ آخر خریدیں کب تلک |
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جااٹکا ہے |
اَصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے |
ہاتھوں سے اپنے دامنِ دُنیا نکل گیا |
وہ مِس بولی، ارادہ خودکُشی کا جب کِیا میں نے |
ناداں تھے اس قدر کہ نہ جانی عرب کی قدر |
ہندوستاں میں جُز وِحکومت ہیں کونسلیں |
ممبری امپیریَل کونسل کی کچھ مشکل نہیں |
دلیلِ مہر و وفا اس سے بڑھ کے کیا ہوگی |
فرمارہے تھے شیخ طریقِ عمل پہ وعظ |
دیکھیے چلتی ہے مشرق کی تجارت کب تک |
گائے اک روز ہوئی اُونٹ سے یوں گرم سخن |
رات مچھّر نے کہہ دیا مجھ سے |
یہ آیۀ نَوجیل سے نازل ہوئی مجھ پر |
جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست |
محنت و سرمایہ دُنیا میں صف آرا ہوگئے |
شام کی سرحد سے رُخصت ہے وہ رندِلَم یَزَل |
تکرار تھی مزارع و مالک میں ایک روز |
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں |
کارخانے کا ہے مالک مَرد کِ ناکردہ کار |
سنا ہے مَیں نے کل یہ گُفتگو تھی کارخانے میں |
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے |
ہمالہ |
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں |
چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں |
تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں |
تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں |
ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے |
تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے |
امتحانِ دیدۀ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو |
پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو |
مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو |
سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو |
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر |
خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر |
تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن |
وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن |
چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن |
تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن |
چشمۀ دامن ترا آئینۀ سیّال ہے |
دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے |
ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے |
تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے |
اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے |
دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے |
ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر |
فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر |
جُنبشِ موجِ نسیمِ صبح گہوارہ بنی |
جھُومتی ہے نشّۀ ہستی میں ہر گُل کی کلی |
یوں زبانِ برگ سے گویا ہے اس کی خامشی |
دستِ گُلچیں کی جھٹک مَیں نے نہیں دیکھی کبھی |
کہہ رہی ہے میری خاموشی ہی افسانہ مرا |
کُنجِ خلوت خانۀ قُدرت ہے کاشانہ مرا |
آتی ہے ندّی فرازِ کوہ سے گاتی ہوئی |
کوثر و تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی |
آئنہ سا شاہدِ قُدرت کو دِکھلاتی ہوئی |
سنگِ رہ سے گاہ بچتی گاہ ٹکراتی ہوئی |
چھیڑتی جا اس عراقِ دل نشیں کے ساز کو |
اے مُسافر دل سمجھتا ہے تری آواز کو |
لیلیِ شب کھولتی ہے آ کے جب زُلفِ رسا |
دامنِ دل کھینچتی ہے آبشاروں کی صدا |
وہ خموشی شام کی جس پر تکلّم ہو فدا |
وہ درختوں پر تفکّر کا سماں چھایا ہُوا |
کانپتا پھرتا ہے کیا رنگِ شفَق کُہسار پر |
"Kuliyat Iqbal" is a compilation of his poetry collections, in which Bang Dara, Bal Jibreel, Zarb Kaleem and Armaghan Hijaz (Urdu part) have been collected in one place. Iqbal's readers are so numerous in India and Pakistan that very few poets have this honor. Kalyat is full of Iqbal's ghazals and poems and enough to study Iqbal at a glance. Iqbal certainly comes in the list of poets who are not easy to understand because sometimes he appears as a spokesperson for nature and sometimes as a revolutionary poet he talks about burning wheat ears with a torch in his hand. Sometimes he teaches Islam, and sometimes he is seen making fun of his plight. In some places he seems to be satisfied with the teaching of Sufism and in some places he hates it. Sometimes he hates western education and sometimes he loves it. In some places he calls India a paradise and in some places he laments its desolation. Sometimes he sings children's songs, sometimes he goes to the last frontier of love and says, "I want the end of love." In each of his creations, Iqbal comes up with a new twist and teaches something and leaves the reader reeling. Iqbal's poetry has many multifaceted themes hidden in it. It should be studied not only by the student of Urdu literature but by every human being and should try to create a new world by applying his teachings. Under consideration is Kalyat Mu Farhang, which has been performed by Khwaja Abdul Hameed Yazdani.
"کلیات اقبال" ان کے شعری مجموعوں کا اجتماع ہے، جس میں بانگ درا، بال جبریل ، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز (حصہ اردو) کویک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ اقبال کے قارئین کی کثرت ہند و پاک میں اس قدر ہے کہ بہت کم شعرا کو یہ شرف حاصل ہے۔ کلیات، اقبال کی غزلوں اور نظموں سے بھرپور ہے اور اقبالیات کا ایک نظر میں مطالعہ کرنے کے لئے کافی۔ اقبال یقینا ان شعرا کی فہرست میں آتا ہے جن کو سمجھنا کار آسان نہیں کیوں کہ کہیں پر وہ فطرت کا ترجمان بن کر نمودار ہوتا ہے تو کہیں انقلابی شاعر کی حیثیت سے ہاتھ میں مشعل لئے خوشہ گندم جلانے کی بات کرتا ہے۔ کہیں وہ اسلامیات کا درس دیتا ہے تو کہیں پر اس کی حالت زار کا تمسخر اڑاتا ہوا نظر آتا ہے۔ کہیں پر وہ تصوف کی تعلیم سے لبریز نظر آتا ہے تو کہیں اس سے متنفر۔ کہیں اس کو مغربی تعلیم سے وحشت ہے تو کہیں اس سے محبت۔ کہیں پر وہ ہندوستان کو جنت نشاں کہتا ہے تو کہیں اس کی ویرانی پر ماتم کناں نظر آتا ہے۔ کبھی وہ بچوں کے گیت گاتا ہے تو کہیں عشق کی آخری سرحد پر جاکر کہتا ہے کہ، "ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ۔" اقبال اپنی ہر تخلیق میں ایک نئے رچاو بساو کے ساتھ آتا ہے اور کچھ درس و تدریس کرتا ہے اور قاری کو جھنجھوڑ کر واپس ہو جاتا ہے۔ الغرض اقبال کی شاعری کثیر الجہات موضوعات خود میں پنہا کئے ہوئے ہے۔ اس کا مطالعہ اردو ادب کے طالب عالم کو ہی نہیں بلکہ ہر انسان کو کرنا چاہئے اور ان کی تعلیمات کو برائے کار لاکر ایک نئے جہان کی تخلیق کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔ زیر نظر کلیات مع فرہنگ ہے، جس کو خواجہ عبدالحمید یزدانی نے انجام دیا ہے۔
- Downloads last month
- 38