text
stringlengths 0
57
|
---|
اور پرندوں کو کیا محوِ ترنّم میں نے |
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قُم میں نے |
غنچۀ گُل کو دیا ذوقِ تبسّم میں نے |
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے |
جھونپڑے دامنِ کُہسار میں دہقانوں کے |
ایک مکڑا اور مکھّی |
اک دن کسی مکھّی سے یہ کہنے لگا مکڑا |
اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا |
لیکن مری کُٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت |
بھُولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھّا |
غیروں سے نہ مِلیے تو کوئی بات نہیں ہے |
اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا |
آؤ جو مرے گھر میں تو عزّت ہے یہ میری |
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا |
مکھّی نے سُنی بات جو مکڑے کی تو بولی |
حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا |
اس جال میں مکھّی کبھی آنے کی نہیں ہے |
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اُترا |
مکڑے نے کہا واہ فریبی مجھے سمجھے |
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا |
منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ |
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا |
اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے |
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں بُرا کیا |
اِس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں |
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کُٹیا |
لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے |
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا |
مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے |
ہر شخص کو ساماں یہ میّسر نہیں ہوتا |
مکھّی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن |
میں آپ کے گھر آؤں، یہ امّید نہ رکھنا |
ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے |
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا |
مکڑے نے کہا دل میں، سُنی بات جو اُس کی |
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا |
سَو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں |
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا |
یہ سوچ کے مکھّی سے کہا اُس نے بڑی بی |
اﷲ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبا |
ہوتی ہے اُسے آپ کی صورت سے محبّت |
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا |
آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کَنیاں |
سر آپ کا اﷲ نے کلغی سے سجایا |
یہ حُسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی |
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا |
مکھی نے سُنی جب یہ خوشامد تو پسیجی |
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا |
انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا میں |
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھّا نہیں ہوتا |
یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے |
پاس آئی تو مکڑے نے اُچھل کر اُسے پکڑا |
بھوکا تھا کئی روز سے، اب ہاتھ جو آئی |
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھّی کو اُڑایا |
ایک پہا ڑ اور گلہری |
بچوں کے لیے |
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے |
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے |
ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور، کیا کہنا |
یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا |
خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں |
جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں |
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے |
زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے |
جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں |
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں |
کہا یہ سُن کے گلہری نے، مُنہ سنبھال ذرا |
یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا |
جو مَیں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا |
نہیں ہے تُو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا |
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے |
کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اُس کی حکمت ہے |
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے |
مجھے درخت پہ چڑھنا سِکھا دیا اُس نے |
قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں |
نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں |
جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دِکھا مجھ کو |
یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو |
نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں |
کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں |
ایک گائے اور بکری |
بچوں کے لیے |
اک چراگہ ہری بھری تھی کہیں |
تھی سراپا بہار جس کی زمیں |
کیا سماں اُس بہار کا ہو بیاں |
ہر طرف صاف ندّیاں تھیں رواں |
تھے اناروں کے بے شمار درخت |
اور پیپل کے سایہ دار درخت |
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی تھیں |
طائروں کی صدائیں آتی تھیں |
کسی ندّی کے پاس اک بکری |
چَرتے چَرتے کہیں سے آ نکلی |
جب ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھا |
پاس اک گائے کو کھڑے پایا |
پہلے جھُک کر اُسے سلام کیا |
پھر سلیقے سے یوں کلام کیا |